دو بزرگ ثناءاللہ امرتسری اور عطاء اللہ امرتس
میرے والد صاحب جب تقسیم ہند کے بعد امرتسر سے لاہور آئے تو اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہجرت نہیں کی بلکہ اگلے روز آئے بھلا کیوں؟ وہ اس لئیے کہ امرتسر میں جس محلہ میں رہتےتھے اس میں مشہور اہلِ حدیث عالمِ دین مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ قیام پذیر تھے.
مولانا تقسیم کے وقت بہت سِن رسیدہ اور لاغرو نحیف ہو چکے تھے اتفاق سے ان کی کوئ جوان نرینہ اولاد اس وقت امرتسر میں نہیں تھی اور مولانا بوجوہ 14 اگست کو نکل نہیں سکتے تھے کوئ وجہ مجھے والد صاحب نے بتائ تھی جو یاد نہیں. میرے دادا جان مرحوم نے میرے والد مرحوم کو حکماََ روکا اور کہا کہ ہم آج جا رہے ہیں تم کل مولانا ثناءاللہ کو ساتھ لے کر آنا وہ اکیلے ہیں ان کو بلوائ نقصان نہ پہنچائیں.
اگلے روز جب گھر سے مولانا کو ہمراہ لے کر ایک تانگہ والے کی بہت منت سماجت کے بعد نکلے تو راستہ میں دشمن تاک میںں تھے انہوں نے تانگہ سٹیشن کی طرف جاتے دیکھا تو فائرنگ کھول دی والد صاحب نے بتایا کہ میں نے تانگے والے سے کہا کہ تانگہ زگ زیگ دوڑائے کبھی دائیں کبھی بائیں اور اگر قسمت میں ابھی زندگی ہوئ تو بچ جائیں گے ورنہ شہادت تو ہے ہی.
تانگےوالارام رام کرتا سرپٹ تانگہ دوڑاتا ہمں اسٹیشن تک لے گیا اللہ نے کرم کیا اور اسٹیشن کے باہر بلوچ رجمنٹ نظر آگئ جس نے اسٹیشن کو حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا.کہتے ہیں ہم ذکر اور حفاظتی دعاو ں کے سائے میں اسٹیشن پہ اترے بہ حفاظت لاہور پہنچے.
حضرت مولانا امرتسری رح اور حضرت امیر شریعت رح دونوں کا قادیانیت کے خلاف محاذ پر جو کردار ہے سب جانتے ہیں اور اسی وجہ سے ان دونوں بزرگوں کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی. مولانا امرتسری نے ہی مرزا قادیانی کو مباہلہ کا تحریری چیلینج دیا تھا کہ جو جھوٹا ہو گا وہ سچّے کے سامنے وبائ موت سےمرے گا میں بھی آمین کہتا ہوں تم بھی کہو اور پھر مرزا تقسیم ہند سے بہت پہلے ہیضے کی وبا سے واصل جہنم ہوا جبکہ حضرت امرتسری رح پاکستان آ کر کئ برس تک زندہ رہے اور طبعی موت کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے.
والد صاحب بھی مولانا کی ان خدمات کی وجہ سے انکی بہت قدر کرتے تھے. ابا جی کہتے ہیں کہ اتنی گہری دوستی اور تعلق کے باوجود امیر شریعت رح اور مولانا ثناءاللہ امرتسری رح کی ایک مرتبہ بول چال بند ہو گئ جس کا مجھے بہت قلق تھا میں دونوں سے الگ الگ پوچھتا کہ اس خفگی و ناراضی کی آخر کیا وجہ ہے دونوں طرف سے بس ایک ہی جواب ملتا کہ مجھے توکچھ پتہ نہیں ان سے پوچھ لو. کسی پروگرام میں جب یہ دونوں بزرک مدعو ہوتے تو دونوں آپس میں جب بات چیت کرنے کی بجائے منہ پھیر کر بیٹھتے تو مجھے سخت تکلیف ہوتی. دونوں کے قریبی حلقہء احباب کو بھی کچھ خبر نہ ہوئ کہ آخر معاملہ کیا ہے.
کہتے ہیں آخر ایک دن مجھے دونوں کو ایک کمرے میں بٹھانے کی ترکیب سوجھی اور ایک دوست کو ان کی دعوت کرنے کا مشورہ دیا. یہ پلان نہایت کامیاب ہوا دونوں بزرگ تشریف لائے الگ اگ کمرے میں بٹھا دیا اور کھانا الگ کمرے میں لگا کر کہا آئیے کھانے کے لئیے تشریف لائیے.ایک کمرہ سے شاہ جی آیے دوسرے سے مولانا امرتسری نکلے جب کھانے کے کمرے میں پہنچے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوئے. لیکن چُپکے سے بیٹھ گئے بس یہی موقعہ تھا کہ میں نے بات چھیڑ دی اور ہنستے ہوئے کہا جب تک آپ دونوں کی آج صلح نہیں ہوتی آپ کو کمرے میں ہی رکھا جائے گا.
شاہ جی نے کہا امین قسم خدا کی مجھے مولانا کی ناراضی کی وجہ بالکل نہیں معلوم اور مجھے مولانا سے کوئ شکوہ شکایت نہیں ہے یہ ہی فرمائیں کہ مجھ سے کیا خطا سرزد ہوئ ہے جو میرے ساتھ یہ رویہ اپنایا ہے اب مولانا سے عرض کیا کہ حضرت آپ اس ناراضی کی وجہ فرما دیجے, اب مولانا نے وجہ بیان کی کہ امین دیکھو شاہ جی نے اعلان کیا کہ قادیان جو مرزائیت کا گڑھ ہے وہاں کانفرنس رکھی ہے سب مسالک کے علماء کو دعوت دی گئ,
اہلحدیث مکتبہء فکر میں سے اُن علماء کو بلایا گیا جن کی اس حوالہ سے خدمات برائے نام تھیں میرا ردِ قادیانیت پر ایک مستقل کردار رہا ہے اور اِسی امرتسر میں رہتا ہوں شاہ جی سے اکثر ملاقات رہتی ہے مگر مجھے اس اتنے بڑے معرکہ خیز اجتماع میں مدعو کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی گئ. مجھے اہمیت ہی نہیں دی گئ سو میں اس لئیے شاہ جی سی ناراض ہوں, تم ہی بتاو کیا میری ناراضی بے سبب ہے.
ابا جی فرماتے ہیں کہ جب شاہ جی مولانا کی یہ شکایت سُن رہے تھے تو ندامت کی وجہ سے نظر نہیں مِلا رہے تھے اپنے جیبی رومال کو باربار دونوں ہاتھوں میں مسلتے اور یہی کہتے جاتے اوہو مولانا بہت بڑی غلطی ہو گئ ہائے مجھ سے اتنی بڑی خطا ہو گئ حضرت بس چُوک ہو گئ بالکل خیال نہ رہا
مولانا معافی کا خواستگار ہوں اُف خدایا اتنی بڑی بھول ہوگئ . اب مولانا امرتسری کے لہجہ میں تبدیلی آنا شروع ہوئ اور فرمایا چلیں چلیں خیر ہے کوئ بات نہیں انسان سے خطآ ہو ہی جاتی ہے اب آپ نے معذرت کر لی تو مجھے اب آپ سےکوئ شکایت نہیں رہی. دونوں بزرگ گَلے ملے اور سارے گِلے جاتے رہے پھر ساری زندگی اُسی طرح ختم نبوت کا دفاع مل کر کرتے رہے.
والد صاحب فرماتے ہیں کہ میں یہ سارا منظر دیکھ کر حیران تھا کہ مولانا کی ناراضی تو بجا تھی لیکن شاہ جی سے یہ کیسے ممکن ہےکہ بھول ہوئ ہو چنانچہ دعوت سے واپس آکر میں نے کہا شاہ جی بھلا یہ کیا بات ہوئ ک آپ مولانا کو دعوت دینا بھول گئے ہوں تو فرمایا امین تم گواہ ہو کہ وہ قادیان والی کانفرنس کوئ عام جلسہ نہیں تھا وہ ایک خطرناک دن تھا وہ ایک میدانِ جہاد تھا۔
جہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا انگریزی حکومت اپنے خود کاشتہ پودے کی حفاظت کے لئیے کسی وقت بھی ہم سب کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر پسِ دیوارِ زنداں کر سکتی تھی بلکہ گولیوں کی بوچھار کر سکتی تھی مولانا کو دانستہ جان بوجھ کر نہیں مدعو کیا کیونکہ اُن کی پِیرانہ سالی اور ضعف ان تکالیف کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی. حضرت کا علمی محاذ پہ لڑنا ہی ہمارے لئیے بہت ہے.
ہتھکڑیوں,بیڑیوں جیلوں گولیوں اور پھانسیوں کے لئیے ہم جو ہیں. اب میں یہ تو نہیں کہ سکتا تھا کہ آپ کمزور ہیں بس معافی مانگ لینا ہی بہتر اور مناسب تھا.
ابآ جی فرماتے ہیں کہ شاہ جی کے اس جملہ پر میں جھوم جھوم اٹھا اور اپنے آپ پر فخر کرنے لگا کہ مجھے شاہ جی جیسا مربی اور راہنما میسّر ہے.
اللہ ختم نبوت کا کام کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں سُرخرُوکرے اور اُن بزرگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے.
آمین.