بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ ایک کہانی ہے پرانے وقتوں کی بات ہے۔ دور کسی بستی کے پاس ایک ندی کے کنارے ایک چرواہا رہتا تھا جس کا نام یوسف تھا۔ وہ نہایت نیک اور نرم دل انسان تھا۔ لیکن وہ امیر نہیں تھا بلکہ سادگی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس نے ندی کے کنارے مٹی کی ایک کچی جھونپڑی بنا رکھی تھی۔ جس میں وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے پاس کوئی بڑا ریوڑ نہیں تھا۔ نہ ہی زمینیں یا باغات تھے۔ صرف ایک بکری اس کے پاس تھی جو اس کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ تھی۔ وہ بکری ہی اس کے بچوں کی مسکراہٹ اور گھر کے چولھے کا سہارا تھی۔
یوسف ہر صبح سورج نکلنے کے وقت بکری کو چراگاہ کی طرف لے جاتا۔ بکری گھاس چرنے لگتی اور یوسف ندی کے کنارے بیٹھ کر کبھی درختوں کو تکتی، کبھی بہتے پانی کو دیکھتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اس نے اسے اتنی بھی نعمتیں دی ہیں۔ کہ وہ اپنے پیٹ کے لیے کچھ کما سکے۔ دن کا زیادہ تر وقت وہ بکری کے ساتھ گزارتا۔ جب شام ڈھلتی تو وہ بکری کا دودھ نکالتا۔ اس دودھ کا پہلا حصہ وہ اپنے بچوں کو پلا دیتا کیونکہ اس کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ اس کے بچے صحت مند اور خوش رہیں۔ دودھ کا باقی حصہ وہ ایک چھوٹے سے برتن میں ڈال کر بستی کی طرف چل دیتا۔ بستی کے بازار میں اس دودھ کو بیچ کر جو کچھ سکے ہاتھ آتے انہیں سے وہ اپنی بیوی اور اپنے لیے تھوڑی بہت روٹی خرید لیتا۔ وہ روٹی اکثر پانی میں بھگو کر کھاتے تاکہ پیٹ بھر جائے۔ لیکن کبھی زبان پر شکوہ نہ لاتا۔
یوسف جو تھوڑی بہت روٹی کھاتا تھا، اس میں سے بھی تھوڑی سی سوکھی روٹی بچا لیتا اور صبح اٹھ کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتا اور چڑیوں کو ڈال دیتا۔ جب وہ دیکھتا کہ ننھی چڑیا چونچ سے دانے اور روٹی کے ذرے چٹکاتی ہیں تو اس کا دل خوشی اور سکون سے بھر جاتا۔ وہ سوچتا جس رب نے مجھے کھلایا ہے اسی نے ان ننھی جانوں کو بھی بھوک دی ہے۔ اگر میں تھوڑا سا حصہ ان کے لیے نکال دوں تو شاید میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے۔
یوسف کی بیوی بھی صبر کرنے والی اور نیک مزاج عورت تھی۔ وہ جھونپڑی میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی۔ کبھی جنگل سے سوکھی لکڑیاں جمع کر لاتی تاکہ رات کو آگ جلا سکیں اور کبھی پرانے کپڑوں کو سی کر بہتر بنانے کی کوشش کرتی۔ ان دونوں میاں بیوی کی محبت اور صبر نے ان کے چھوٹے سے گھر کو جنت کا سا سکون دیا ہوا تھا۔ اگرچہ وسائل کم تھے۔ لیکن دل کی محبت، اللہ پر بھروسہ اور قناعت نے غریبی کو بھی سہل بنا دیا تھا۔
یوں دن گزرتے جا رہے تھے۔ یوسف کے لیے ہر دن ایک جیسا لگتا تھا۔ صبح بکری کو چراگاہ میں لے جانا، دن بھر محنت کرنا، شام کو دودھ بیچنا اور رات کو جھونپڑی میں گھر والوں کے ساتھ سو جانا۔ مگر اس کے دل میں ہمیشہ ایک شکرگزاری کی لہر موجود رہتی۔ وہ اکثر ندی کنارے بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتا اور کہتا اے میرے پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے بھوکا نہیں سونے دیا۔ میرے بچوں کو دودھ دیا اور میرے سر پر چھت دی۔ تو بڑا مہربان ہے۔
یوسف اگرچہ شاکر تھا۔ لیکن جس بستی کے قریب وہ رہتا تھا، وہاں کے لوگ نرم دل نہ تھے۔ وہ اکثر یوسف کا مذاق اڑاتے۔ جب بھی یوسف اپنی ایک بکری کو لے کر چراگاہ یا جنگل کی طرف جاتا تو بستی کے کچھ آوارہ لوگ راستے میں آ جاتے اور اس پر ہنسنے لگتے۔ ارے دیکھو ایک بکری والا چرواہا جا رہا ہے۔ کبھی کسی نے ایک بکری والا چرواہا دیکھا ہے؟ ہا یہ باتیں یوسف کے دل کو چیر دیتیں۔ اس کے قدم لمحہ بھر کے لیے ڈگمگا جاتے۔ لیکن وہ اپنے چہرے پر صبر کا لباس ڈال لیتا۔ وہ جانتا تھا کہ جواب دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے وہ نظر انداز کر کے اپنی راہ لیتا اور دل ہی دل میں کہتا یا اللہ یہ لوگ میری غریبی کا مذاق اڑاتے ہیں مگر تو دلوں کا حال جانتا ہے تو ہی میرا رازداں ہے اور تو ہی میرے بچوں کا سہارا ہے۔
یہ صرف بڑے لوگوں کا رویہ نہ تھا بلکہ بستی کے بچے بھی ویسا ہی کرتے تھے۔ جب کبھی یوسف کے دونوں بچے ندی کنارے یا بستی کے قریب کھیلنے نکلتے تو دوسرے بچے ان کا مذاق بناتے۔ وہ اکٹھے ہو کر کہتے دیکھو یہ تو ایک بکری والے چرواہے کے بچے ہیں۔ ہم غریبوں کے ساتھ نہیں کھیلتے اور پھر ہنستے ہوئے دور بھاگ جاتے۔ یوسف کے بچے چھوٹے دل کے مالک تھے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں یہ طنزیہ جملے تیر کی طرح لگتے۔ وہ چپ چاپ گھر لوٹ آتے اور اپنے والد کے پاس بیٹھ جاتے۔
ایک دن بڑا بیٹا روتے ہوئے بولا، بابا، دوسرے بچے ہمیں غریب کہتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ نہیں کھیلتے۔ کیا ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے؟ کیا ہم کبھی امیر نہیں ہوں گے؟ یوسف نے بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ لیکن اس نے انہیں باہر نہ آنے دیا۔ اس نے نرمی سے اپنے بچوں کو تسلی دی اور کہا میرے پیارے بیٹوں ہم غریب نہیں ہیں۔ غریب تو وہ ہوتے ہیں جو اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ ہمارے پاس ایک بکری ہے اور یہ بھی اللہ کی نعمت ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کے دودھ سے تمہارا پیٹ بھرتا ہے؟ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جو شکر ادا کرے اللہ اسے اور عطا کرتا ہے۔ بیٹا وقت آئے گا جب اللہ ہمیں اور بکریاں دے گا۔ اور وہی لوگ جو آج ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ کل تمہاری عزت کریں گے۔
یہ سن کر دونوں بچوں کے دل کو کچھ تسلی ہو گئی۔ انہوں نے اپنے باپ کی داڑھی تھام کر کہا بابا ہم بھی اللہ سے دعا کریں گے کہ وہ ہمیں اور بکریاں دے۔ یوسف مسکرایا اور بولا ہاں بیٹا دعا اور صبر کرنے والوں کو کبھی محروم نہیں رکھا جاتا۔ اللہ کے خزانے بہت بڑے ہیں۔ یوں یوسف اپنے بچوں کے دلوں میں امید جگاتا اور انہیں صبر و شکر کا سبق دیتا۔ اگرچہ اس کا دل ہر روز ٹوٹتا تھا۔ لیکن وہ اپنے دکھ کو چھپا لیتا۔ اس کا یقین تھا کہ ایک دن حالات بدلیں گے اور اس کے صبر کا پھل ضرور ملے گا۔
رات کا وقت تھا۔ ندی کے کنارے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بستی کے سب لوگ اپنے گھروں میں سو گئے تھے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن یوسف کی جھونپڑی کے اندر ایک دل بےقرار جاگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ اپنے پرانے کپڑے پہنے وہ سیدھا چٹائی پر بیٹھا۔ آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اپنے ہاتھوں پر ٹپکنے دے رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتا اور دھڑکتے دل سے کہتا اے میرے اللہ اے میرے پروردگار میں تیرا نادار بندہ آج بھی تیرے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوں۔ تو میرا رازداں ہے۔ تو ہی میرا سہارا ہے۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ میرے بچوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہمیں غریب کہتے ہیں۔ یا رب ان ظالموں کی باتیں میرے دل کو کاٹتی رہی۔ مگر میں ان کے جواب نہیں دیتا۔ میں صبر کرتا ہوں۔ تو ہمیں صبر عطا فرما۔ تو ہماری حالت بدل دے۔ اے رب کریم میرے ننھے بچے معصوم ہیں۔ ان پر رحم فرما۔
یہ الفاظ کہتے ہوئے یوسف کا گلا رندھ گیا۔ آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہو گئی۔ وہ دیر تک سسکیاں لیتا اور پھر سر کو سجدے میں رکھ دیتا۔ یوسف اکثر راتوں کو اسی طرح جاگتا اور دعا کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ انسان کسی کو سب کچھ بتا بھی دے۔ تب بھی اس کا دل خالی نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کے سامنے دل کا حال بیان کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ یوں کئی راتیں گزریں۔ یوسف ہر رات اللہ سے آسانی مانگتا رہا۔ وہ دن بھر محنت کرتا۔ بکری کو چراگاہ میں لے جاتا، بچوں کو دودھ پلاتا اور جو تھوڑا بہت بچتا بازار لے جا کر بیچتا۔ مگر جب رات ڈھلتی تو اس کے زخم ہرے ہو جاتے اور وہ پروردگار کے سامنے گڑگڑاتا۔ اللہ کو یہ بندہ بہت پسند تھا۔ مگر اللہ کا اصول یہی ہے کہ جسے وہ چاہتا ہے، اس کے ایمان کو آزمائش کی بھٹی میں ڈال کر کندن بنا دیتا ہے۔ یوسف پر بھی وہ وقت آنے والا تھا۔
ایک صبح یوسف ہمیشہ کی طرح بکری کے پاس گیا۔ وہ مٹی کا پرانا پیالہ ہاتھ میں لیے بیٹھ گیا تاکہ دودھ دوہ کر بچوں کے لیے لے آئے۔ لیکن جب اس نے بکری کو دوہا تو ایک بوند بھی نہ نکلی۔ یوسف کے دل پر جیسے ہتھوڑا گرا۔ وہ حیران رہ گیا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی لیکن بکری کا تھن خالی تھا۔ یوسف کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ دیر تک بکری کے پاس بیٹھا رہا۔ جیسے یقین ہی نہ آ رہا ہو کہ یہ کیا ہو گیا۔ اس کے ہونٹ کانپنے لگے اور دل سے بےاختیار نکلا۔ یا اللہ یہ کسی آزمائش ہے؟ یہ بکری تو میرا سہارا تھی۔ میرے بچے اس کے دودھ سے پلتے تھے۔ اب میں کیا کروں؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔ بچوں کی معصوم صورتیں آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج شام کو جب بچے بھوک سے روئیں گے تو وہ انہیں کیا کھلائے گا۔ اس کے پاس کوئی روزی نہ تھی۔ ان دنوں بستی میں مزدوری بھی نہیں مل رہی تھی۔ نہ زمین تھی نہ کوئی دوسرا ذریعہ۔
یوسف نے بےاختیار آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔ اے اللہ میں اپنے بچوں کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ یا رب تو ہی مدد کر۔ میں جانتا ہوں کہ تو رحیم ہے، کریم ہے۔ میرے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ مگر اے پروردگار میری طاقت جواب دے رہی ہے۔ یوسف کی بیوی جب یہ حال دیکھتی تو اس کے دل پر بھی چھریاں چل جاتیں۔ وہ خود بھی پریشان تھی۔ مگر اپنے شوہر کو سنبھالنے کی کوشش کرتی۔ وہ آہستہ سے کہتی یوسف رونا چھوڑ دو۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ وہ ہمیں بھوکا نہیں مارے گا۔ لیکن اس کی اپنی آواز کانپ رہی ہوتی۔
ادھر بچے شام کو بھوک سے تڑپنے لگے۔ وہ روٹی کے ٹکڑے مانگتے لیکن گھر میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ یوسف انہیں بہلاتا۔ کبھی اپنے ہاتھ سے بوسیدہ کپڑے کی گیند بنا کر کھیلنے کو دے دیتا۔ کبھی کہتا بیٹا دیکھو کل صبح بکری دودھ دے گی۔ مگر دل کے اندر وہ جانتا تھا کہ بکری بیمار ہے یا قدرتی طور پر دودھ دینا چھوڑ چکی ہے۔ اس رات یوسف نے پھر اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھائے۔ اس کی دعائیں اور زیادہ ٹوٹ پھوٹ کر نکلتیں۔ وہ کہہ رہا تھا اے اللہ میں جانتا ہوں کہ تو میرے حال سے واقف ہے۔ لوگ ہنستے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں۔ اب جب انہیں پتہ چلے گا کہ میری بکری بھی دودھ نہیں دیتی تو وہ اور زیادہ ہنسیں گے۔ اے اللہ میرے دل کو مضبوط کر دے۔ میرے بچوں کی بھوک مجھے مار ڈالتی ہے۔ مجھے صبر دے۔ مجھے ہمت دے۔ اور مجھے کوئی راستہ دکھا۔
یوسف کے آنسو جھونپڑی کی مٹی میں جذب ہو رہے تھے۔ اور آسمان پر چاند اپنی ٹھنڈی روشنی بکھیر رہا تھا۔ وہ روشنی گویا یہ کہہ رہی تھی کہ اندھیروں کے بعد اجالا ضرور آتا ہے۔ لیکن یوسف کے دل کو وہ اجالا ابھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یوسف کے بچے بھوک سے نڈھال ہو چکے تھے۔ دن ڈھل چکا تھا لیکن ان کے پیٹ میں ایک لقمہ تک نہیں گیا تھا۔ چھوٹا بچہ بار بار روتا اور اپنی ماں کے سینے سے لپٹ جاتا لیکن اس کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا۔ یوسف کی بیوی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ وہ بےبسی سے یوسف کو دیکھ کر بولی اے یوسف کچھ کیجیے۔ کچھ کام تلاش کریں یا پھر بازار میں چلے جائیں۔ شاید کوئی ایسا شخص مل جائے جو ہماری بکری خرید لے۔ کم از کم کچھ ہفتوں تک بچوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام تو ہو جائے گا۔
یہ سن کر یوسف کے دل پر جیسے ہتھوڑے برسنے لگے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بکری ہی اس کا سب کچھ ہے۔ یہی بکری اس کے بچوں کا سہارا ہے۔ لیکن اب وہ بھی دودھ دینا چھوڑ چکی تھی۔ یوسف سوچ میں پڑ گیا۔ اگر میں بکری بیچ بھی دوں اور اس کے پیسے سے کچھ دن گزار بھی لوں تو جب یہ پیسے ختم ہو جائیں گے اس کے بعد کیا ہوگا؟ پھر میرے بچے کس کی آس پر زندہ رہیں گے؟ یہ خیالات اس کے دل کو کاٹنے لگے۔ لیکن ساتھ ہی وہ صبر کا دامن تھامے اللہ پر بھروسہ کرتا رہا۔ وہ آہستہ آہستہ بازار کی طرف چل پڑا۔ اس کے قدم بوجھل تھے، مگر امید کی ایک کرن ابھی باقی تھی۔
بازار میں وہ کافی دیر تک کھڑا رہا۔ لوگوں کو دیکھتا رہا۔ کوئی کام نہ ملا۔ کچھ دیر وہ دکانوں پر جھانکتا رہا۔ کبھی مزدوری پوچھتا لیکن ہر طرف سے انکار ہی ملا۔ تھک ہار کر وہ سوچنے لگا کہ کسی سے بکری بیچنے کا پوچھا جائے۔ اتنی میں اس کی نظر ایک امیر شخص پر پڑی جو گھوڑے پر سوار تھا۔ اس کے لباس، انداز اور چہرے سے ہی اس کی دولت اور رعب جھلک رہا تھا۔ اچانک یوسف نے دیکھا کہ اس شخص کی جیب سے ایک چھوٹی تھیلی زمین پر گر گئی۔ یوسف نے فوراً وہ تھیلی اٹھائی۔ تھیلی کا وزن بتا رہا تھا کہ اس میں سونے کے سکے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے یوسف کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ سکے وہ رکھ لے تو اس کے بچوں کے دن پھر سکتے ہیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس کے دل نے اسے جھنجوڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے بچوں کو حرام رزق کھلاؤں۔ میرا رب تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے بنا تھیلی کھولے اسے مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور گھوڑے والے شخص کو آواز دی۔ اے بھائی ذرا ٹھہریے۔ آپ کی تھیلی گر گئی ہے۔ مگر بازار کے شور اور گھوڑے کی ٹاپوں میں اس شخص نے یوسف کی آواز نہ سنی اور آگے بڑھ گیا۔
یوسف بھاگنے لگا۔ اس کے پاؤں تیزی سے زمین پر پڑ رہے تھے۔ پسینے میں شرابور ہو گیا۔ لیکن وہ رکنے کو تیار نہ تھا۔ آخرکار وہ امیر شخص کے حویلی نما گھر تک جا پہنچا۔ وہ شخص ابھی اپنے حویلی کے دروازے پر ہی تھا جب اسے جیب ہلکی محسوس ہوئی۔ اس نے فوراً جیب ٹٹولی۔ تھیلی غائب تھی۔ اس کا رنگ اڑ گیا۔ دل گھبرا اٹھا۔ وہ پریشان کھڑا ہی تھا کہ اتنی میں دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے یوسف کھڑا تھا۔ اس نے ادب سے کہا۔ جناب آپ کی تھیلی بازار میں گر گئی تھی۔ یہ رہی۔ وہ شخص حیرت سے یوسف کو دیکھتا رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ اس نے تھیلی لی۔ یوسف کو گلے سے لگا لیا اور رونے لگا۔ میں نے آج تک اپنی زندگی میں اتنا ایماندار آدمی نہیں دیکھا۔ اگر چاہتا تو یہ سب سونا لے جاتا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ لیکن تم نے اپنی غریبی کے باوجود امانت واپس لوٹا دی۔ تم واقعی اللہ کے ولی بندے ہو۔
امیر آدمی نے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے غلام کو آواز دی اور کہا سنو یہ شخص عام آدمی نہیں یہ سچائی اور ایمانداری کی زندہ مثال ہے۔ ایسے لوگ زمین پر اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ اس جیسا نیک شخص انعام کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ جاؤ حویلی کے باڑے سے 20 موٹی تازی بکریاں لے آؤ اور فوراً اس کے حوالے کر دو۔ غلام فوراً دوڑا اور کچھ ہی دیر میں 20 بکریاں یوسف کے سامنے لا کھڑی کیں۔ وہ بکریاں اتنی تنددرست اور قیمتی تھیں کہ اگر کوئی دوسرا شخص ہوتا تو شاید برسوں کی محنت کے بعد بھی انہیں خریدنے کا سوچ نہ سکتا۔
یوسف نے یہ سب دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔ دل ہی دل میں بولا اے میرے رب تو ہی رازق ہے تو ہی حاجت روا ہے میں تیری ذات پر بھروسہ کرتا رہا اور آج تو نے میری دعائیں سن لیں۔ بکریاں لے کر جب بستی کی طرف واپس لوٹا تو لوگوں کی نظریں اس پر جم گئیں وہی لوگ جو کل تک یوسف کا مذاق اڑاتے تھے اس کی غریبی پر طعنے کستے تھے آج حیران تھے۔ ان کے چہروں پر شرمندگی تھی۔ ان کی زبانیں گونگی ہو گئیں کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ کچھ کہے۔
یوسف جب ندی کے کنارے اپنی جھونپڑی کے پاس پہنچا تو اس کی بیوی دروازے پر کھڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ یوسف کے ساتھ 20 کے قریب بکریاں ہیں۔ تو حیرت سے اس کے منہ سے الفاظ نہ نکلے۔ وہ دوڑ کر یوسف کے پاس آئی اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ یوسف، یہ سب یہ بکریاں کہاں سے آئیں؟ یوسف نے مسکرا کر سارا واقعہ سنایا کہ کس طرح اللہ نے ایک امانت واپس کرنے کے صلے میں اس کی تقدیر بدل دی۔ بیوی کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ بچوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں اور باپ کے گلے سے لپٹ گئے۔ یوں یوسف کی سچائی اور صبر رائیگاں نہ گئے۔ وہ رات جس میں وہ اپنے بچوں کے بھوکے ہونے پر رو رہا تھا۔ اس کی جگہ آج خوشی، سکون اور شکرگزاری نے لے لی۔ اللہ نے اس کی دعائیں قبول کیں اور ثابت کر دیا کہ صبر اور ایمان رکھنے والا بندہ کبھی رسوا نہیں ہوتا۔
دوستوں، اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صبر، نیکی اور ایمانداری کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔ دنیا والے چاہے جتنا بھی مذاق اڑائیں، طعنے دیں یا کمزور سمجھیں۔ مگر جو بندہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہے اور حلال راستے پر قائم رہتا ہے۔ اللہ اس کے لیے ایسے دروازے کھول دیتا ہے جن کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یوسف کی طرح ہمیں بھی ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہیے۔ چاہے وسائل کم ہوں یا حالات سخت۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں۔ کیونکہ ایمانداری وہ چراغ ہے جس سے زندگی کے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں۔