محبت یا معمہ؟ نئی نویلی دلہن کی آنکھوں کے آنسو

فرحانہ ہمارے محلے میں نئی نئی آئی تھی۔ جلد ہی اس کی نیک نامی کے چرچے ہمارے پورے محلے میں ہونے لگے کہ یہ لڑکی بڑے شریف اور بااخلاق مالک ہے۔ اپنی ماں کے منہ سے میں فرحانہ کی اتنی تعریفیں سن چکا تھا۔ میری ماں کو فرحانہ اتنی پسند آئی کہ وہ کہنے لگی کہ میری تو خواہش ہے کہ فرحانہ میری بہو بنے۔ وہ میرے گھر میں آ گئی تو میرے گھر کو جنت بنا دے گی۔ اپنی والدہ کے منہ سے ایک لڑکی کی اس قسم کی اور نیک دات کی تعریفیں سن کر مجھے بھی خواہش ہونے لگی کہ میری بیوی ایسی ہی لڑکی ہو۔

میری والدہ نے فرحانہ کے والدین سے میرے لیے فرحانہ کا رشتہ مانگا تو انہوں نے رضامندی دے دی۔ میں بہت خوش تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں اسے ایک نظر دی ھوں۔ لیکن جب میں نے اپنی خواہش اپنی والدہ کے سامنے رکھی تو میری والدہ کہنے لگیں کہ وہ بہت با پردہ لڑکی ہے۔ اس کے گھر والے بھی مذہبی قسم کے ہیں۔ تصویر مانگنے پر بھی کہیں طلاق نہ کر دے۔ میں تو ٹھنڈی آہ بھرتا رہ گیا۔

تین ماہ بعد شادی تھی اور ان تین ماہ میں میں جانتا تھا کہ فرحانہ کی ایک جھلک بھی دیکھنا مجھے نصیب نہیں ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، میری بے تابی فرحانہ کے لیے بڑھتی جا رہی تھی۔ آئے روز جب امی ان کے گھر سے ہو کر آتیں تو اس کی تعریفیں کرنے لگتیں کہ آج تو فرحانہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے بڑی مزے کی چائے بنائی تھی۔ کھانا کھائے بغیر مجھے آنے نہیں دیا۔ اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ ہے۔ یہ سب سن کر غیباً طور پر مجھے اپنی منگیتر سے شدید محبت ہو چکی تھی۔

اسی لیے شادی کی رات تو میری بے تابیں پوری شدت سے ابوتاب پر تھیں۔ میرے جذبات میرے اندر ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ شادی ہال بھی میرے سسرال والوں نے ایسا ارینج کیا تھا کہ خواتین کا الگ انتظام تھا اور مردوں کا الگ۔ رخصتی تک میں نے اپنی بیوی کو نہیں دیکھا۔ رخصتی پر بھی اس کے اوپر لمبی چوڑی سی چادر ڈال دی گئی اور وہ پوری کی پوری چھپی ہوئی تھی۔

جیسے ہی میں اس کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا تو میری بہنیں اسے میرے کمرے میں لے گئیں۔ مجھے میرے دوست لے کر بیٹھ گئے۔ جانتے تھے کہ میں اس وقت تنہائی کا متحمل نہیں ہوں۔ بیوی کے علاوہ تو مجھے آج کوئی بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن دوست جان چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ بمشکل ساری رسموں سے جان چھڑوا کر رات کے بارہ بجے مجھے کمرے میں جانا نصیب ہوا۔

کمرے میں داخل ہوا تو گلاب اور کلیوں کی معطر خوشبوؤں نے میرا استقبال کیا۔ بیڈ پر بیٹھی میری دلہن میری امڈ پر سمٹ کر بیٹھی۔ پہلی نظر اس کے سفید دودھیا پاؤں پر پڑی جس پر لگی مہندی نے میرے دل کو دھڑکا کے رکھ دیا۔ دوسری نظر میری اس کے خوبصورت مومی ہاتھوں پر پڑی جن پر سرخ رنگ کی چوڑیاں، ہاتھوں پر لگی مہندی کے نقوش نگار اور اس کے ہاتھوں کی خوبصورتی کو اور بھی بڑھا رہی تھیں۔ بس چہرہ ابھی تک گھونگٹ میں چھپا تھا۔

میں آہستہ سے قدم اٹھاتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ اس وقت میرا دل، میری دھڑکن میرے اختیار سے باہر تھی۔ خود بخود ایک فریب سی مسکان آ گئی۔ تین ماہ میں نے بس فرحانہ کے تصور ہی تو بنائے تھے، ابھی تک دیکھا نہیں تھا۔ میں اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا لیکن میرے بیٹھتے ہی وہ اچھل کر کچھ پیچھے ہٹی۔ مجھے اس کی حرکت پر حیرت ہوئی لیکن شاید وہ گبھرائی ہوئی تھی۔ میں نے گھونگٹ اٹھایا تو وہ بے حد خوبصورت تھی، میرے تصور سے بھی بڑھ کر۔ لیکن اس سے زیادہ وہ نروس لگ رہی تھی۔

ویسے تو آجکل کے دور کی لڑکیاں اتنا زیادہ شرماتی نہیں ہیں لیکن فرحانہ جیسی لڑکی سے میں یہ امید رکھ سکتا تھا۔ کیونکہ اپنی والدہ کے منہ سے جو تعریفیں میں نے اس کی سنی تھیں، ان میں شرم و حیا کا ہونا بھی شامل تھا۔ میں نے جیسے ہی اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تو وہ برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اسے منگنی کی انگوٹھی پہنا آتا، وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے آہستہ سے کھینچنے لگی۔

میں نے کہا تم میرے تصور سے زیادہ حسین ہو۔ تین ماہ میں نے تمہیں بن دیکھے بڑی مشکل سے گزارے ہیں۔ میں نے اپنی بے تابیوں کا ذکر فرحانہ سے کرنا شروع کر دیا۔ لیکن جیسے جیسے میں اس کی تعریف کر رہا تھا اور اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا، بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتی یا شرماتی، وہ گبھرا رہی تھی۔ اس کے چہرے کی رونق مجھے میک اپ میں بھی فیکتی پڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اس کا تنفس بڑی تیزی سے چل رہا تھا۔

میں اس کی اس کیفیت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ایسی بھی کیا جھجک؟ لڑکیاں تو اس رات کے بہت سے خواب سجائے پیاء کے آنگن میں قدم رکھتی ہیں۔ میری خواہش تھی اپنی بیوی کا میں اپنے ہاتھوں سے اتارتا، ساتھ ساتھ اس کی تعریفیں بھی کرتا جاتا۔ لیکن جیسے ہی میں نے اس کے ماتھے پر لگے جھومر کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے فوراً سے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ کہنے لگی میں خود اتار لوں گی۔

مجھے اس کا رویہ کچھ عجیب اور غریب سا لگ رہا تھا۔ میں نے کہا نہیں فرحانہ، میری خواہش ہے کہ یہ کام میں کروں۔ آج کے دن تو تمہاری خدمت میں اپنے ہاتھوں سے کرنا چاہتا ہوں۔ پھر ساری زندگی تم نے ہی تو میری خدمت کرنی ہے۔ بجائے میری بات پر خوش ہونے کے، اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی بس اپنے گھر سے جدا ہونے کا غم ہے۔

بہر حال پہلی رات کی جھجک فرحانہ میں کچھ زیادہ ہی تھی لیکن میری وہ رات بے حد حسین گزری تھی۔ میں گہری نیند سو رہا تھا جب مجھے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ ایکدم میری آنکھ کھلی۔ نیند کا میں شروع سے ہی کچا تھا، ذرا سی آہٹ پر میری آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔ نیند کی گھنگھور میں میں نے بمشکل آنکھیں کھولی۔ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن کسی کی آوازیں بتا رہی تھیں کہ مجھے اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھیں۔

میں اٹھ بیٹھا۔ لیکن جیسے ہی اٹھا، سامنے فرحانہ جا نماز بچھائے دیئے کے انداز میں ہاتھ اٹھائے رو رہی تھی۔ اس اندھیرے میں مجھے اس کے سفید دوپٹے میں لپٹا ہوا وجود دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ نماز پڑھ رہی ہیں۔ لیکن جیسے ہی کھڑکی کے باہر میری نظر گئی، باہر تو گھپ اندھیرا تھا۔ فرحانہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔ میں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے۔ فجر کی اذان تو ساڑھے پانچ بجے شروع ہوتی تھی۔ اس وقت وہ کیا پڑھ رہی تھی؟

پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاید وہ اس وقت تہجد پڑھ رہی ہوگی۔ میرے دل میں فرحان کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔ وہ پانچ وقت کی نماز نہیں بلکہ تہجد گزار بھی تھی۔ چلو نماز پڑھنا تو مجھے سمجھ میں آتا تھا لیکن سسکیوں سے رونا میری عقل سے باہر تھا۔ اسے تو شکرانے کے نفل ادا کرنے چاہئیے تھے، خوش ہونا چاہیے تھا۔ اس کی زندگی کی بہترین ابتدا ہوئی تھی لیکن وہ رو رہی تھی۔ وہ کیوں رو رہی تھی؟

اس کی سسکیوں نے مجھے پریشان کیا تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا، تکیہ درست کیا۔ فرحانہ شاید میرے جاگ جانے سے واقف نہ تھی، اسی لیے دعا کرتے کرتے اس کی آواز کچھ بلند ہوئی جو کہ میرے کانوں میں بھی ٹکرائی۔ جو بات وہ رب کے حضور کہہ رہی تھی، اس نے تو مجھے کچھ پل کے لیے حواس باختہ کر دیا تھا۔ کہنے لگی اے اللہ، مجھ سے رات کو گناہ ہو گیا۔ مجھے اس گناہ کی معافی دے دے۔

یہ سن کر تو میری آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔ وہ یہ کیا کہہ رہی تھی؟ میں تو اس کی بات سن کر ہی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو گیا تھا۔ مگر پھر سے وہ یہی کہہ رہی تھی کہ رات کو اس نے کوئی گناہ کیا ہے جس کی معافی وہ یوں رو رو کے مانگ رہی تھی۔ یہ سن کر میرے حواس گم ہونے لگے۔ آخر میری بیوی نے رات کو ایسا کیا گناہ کیا ہے؟ گناہ کا خوف تو اسے اس وقت ہونا چاہیے تھا اگر وہ مجھے حق زوجیت ادا کرنے کو گناہ کہہ رہی تھی۔

مجھے لگا جیسے میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا ہو۔ میرا دماغ کام کرنا بند ہو گیا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ یہ بات کیوں کہہ رہی ہے۔ کیا اس کی شادی اس کی رضامندی سے نہیں ہوئی، اس لیے اسے یہ سب گناہ لگ رہا ہے؟ ایک کے بعد ایک وسوسے میری جان نکالے ہوئے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد فرحانہ کی سسکیاں بند ہوئیں۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے، جا نماز طے کر کے ایک طرف رکھ دی۔ لیکن جیسے ہی پلٹ کر مجھے دیکھا تو اس کے چہرے کی رونق فیک پڑ گئی۔

مجھے جگتا دیکھ کر اور اپنی جانب توجہ دیکھ کر وہ گبھرائی تھی۔ مجھ سے کہنے لگی آپ اتنی جلدی کیوں اٹھ گئے؟ میں نے کہا ادھر آؤ، میرے پاس آ کر بیٹھو۔ میں اس وقت سنجیدہ تھا۔ آہستہ آہستہ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آ گئی۔ میں نے کہا کیا بات ہے فرحانہ، رو کیوں رہی تھی؟ میری بات پر اس نے نظریں چرا لیں۔ میں نے سائڈ ٹیبل کا لیمپ جلا دیا۔ اب اس کا چہرہ مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔

میں نے کہا بتاؤ کیوں رو رہی تھی؟ وہ کہنے لگی بس مجھے عادت ہے، میں دعا مانگتی ہوں تو ایسے ہی روتی ہوں۔ اس لیے آپ میری سسکیوں سے میرے رونے سے پریشان نہ ہوا کریں۔ یہ کہ کر وہ کھڑی ہو گئی لیکن میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کا ہاتھ میں نے اپنی جانب زور سے کھینچا تو وہ میرے قریب ہو گئی۔ اس کا چہرہ میرے چہرے کے بالکل قریب تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا کیا گناہ کیا ہے تم نے؟ کس گناہ کی معافی مانگ رہی ہو؟ بتاؤ مجھے۔

میری بات پر تو جیسے اس کی جان نکل گئی۔ میرا لہجہ اس وقت سخت تھا۔ جو بات میرے کانوں نے سنی تھی، وہ کوئی چھوٹی بات تو نہ تھی۔ کس گناہ کی بات کر رہی تھی؟ اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ کر پیچھے کیا۔ کہنے لگی آپ کو سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ یہ کہ کر اس نے تکیہ اٹھایا اور صوفے پر جا کر لیٹ گئی۔

مجھے اس کی اس حرکت سے اور بھی غصہ آنے لگا۔ میں نے کہا فرحانہ، یہ کیا بدتمیزی ہے؟ ادھر آؤ، میرے پاس آ کر لیٹو۔ وہ کہنے لگی مجھے نیند آ رہی ہے، میں سونا چاہتی ہوں۔ لیکن میں نے کہا کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ نہ تو مجھے نیند آ رہی ہے اور نہ میں سونا چاہتا ہوں اور نہ میں تمہیں سونے دوں گا۔ جلدی سے ادھر آؤ۔ میں تمہارا شوہر ہوں اور میرا حکم ماننا تم پر فرض ہے۔

اور مجھے اس وقت اس کی اس ادا پر بھی پیار آ رہا تھا۔ میری یہ بات سن کر وہ میرے ارادے کو سمجھ گئی تھی۔ میری بات کو سمجھتے ہی اس کے چہرے کی رونق پھر سے فیکی پڑنے لگی۔ بار بار وہ اپنی انگلیاں چٹک رہی تھی، جیسے سمجھ نہ پا رہی ہو کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ میں بیڈ سے اٹھا، تیز قدم اٹھاتا ہوا صوفے تک پہنچا، اسے بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ بیڈ پر لے آیا۔

جیسے ہی میں اس کے قریب ہونے لگا، وہ مجھ سے کترانے لگی۔ لیکن مجھے کہاں پرواہ تھی۔ شادی کے شروع کے دن تھے اور ان دنوں میں تو میاں بیوی کی سنگت بہت ہی اچھی لگتی ہے۔ مجھے لگا کہ وہ دعا میں کچھ اور کہہ رہی ہوگی، میرے ہی سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن اگلی رات پھر یہی ہوا۔ اس رات کو بھی جیسے ہی میں نے اپنا حق وصول کیا، وہ فوراً سے مجھ سے پیچھے ہٹ گئی اور جلدی سے غسل کرنے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔

یہ دیکھ کر مجھے بڑا عجیب سا لگا۔ اس کا رویہ میرے ساتھ ایسا تھا جیسے میں اس کے ساتھ زبردستی کر رہا ہوں اور وہ بے بس ہے، مجبور ہے۔ جیسے کہ اس رشتے میں اس کی اپنی کوئی بھی رضامندی شامل نہیں ہے۔ یہ بات ایک مرد ہوتے ہوئے مجھے کھٹک لگی تھی۔ ایک بار تو میں نے اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھے تھے۔ وہ مسلسل میری قربت سے گبھرا رہی تھی اور یہ شرمانا نہیں تھا، یہ تو کچھ اور ہی تھا۔

ایکدم میں اس سے پیچھے ہٹ گیا۔ مجھے اس پر غصہ بھی آنے لگا کیونکہ میری محبت کا جواب ابھی تک اس نے مجھ سے محبت سے نہیں دیا تھا۔ جب بھی میں قریب آنے کی کوشش کرتا، ایک کتراہٹ اس پر سوار ہوتی تھی۔ مجھ سے ترانا، گبھرانا، خود کو مجھ سے پیچھے کرنا، سارا وقت وہ اسی میں گزار دیتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے وہ کسی اجیرن سے گزر رہی ہے۔ کیا میرا رشتہ اس کے لیے اجیرن تھا؟ اگر تھا تو کیوں؟

ایک مرد سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اپنی بیوی کا ایسا رویہ ہرگز نہیں۔ میں فوراً سے بیڈ سے اٹھ کر صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔ مجھے محبت کے بدلے فرحانہ سے محبت چاہیے تھی، نہ کہ کتراہٹ۔ پوری رات مجھے نیند نہیں آئی۔ میں یہی سوچتا رہا کہ آخر فرحانہ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

Welcome to our storytelling world! 🌟 I’m Aflah Noor, the creator of this platform. Here I share Moral, Motivational, Historical, and Funny Stories to inspire, educate, and bring joy to readers of all ages.