*ماں کی خدمت*
ایک سعودی خاتون ڈاکٹر کہتی ہیں:
میرے کلینک میں ایک نوجوان آیا جس کا نام محمد تھا، عمر تقریباً 30 سال۔ اُس کے ساتھ اُس کی ماں تھی جسے وہ سینے سے لگائے ہوئے تھا۔ ماں اُس سے چھڑک رہی تھی، خمار (دوپٹہ) پھینک دیتی تو وہ سیدھا کر دیتا، اُس کا ہاتھ کاٹ لیتی، اُس کے ہاتھوں کو نوچ دیتی، اُس کے چہرے پر تھوکتے اور وہ مسکرا کر صاف کر دیتا۔
جب وہ اندر آئی تو اُس کی ماں پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی، دوپٹہ پھینک دیا، اور کلینک کی میز کے گرد گھومنے لگی۔
ڈاکٹر نے پوچھا: “یہ کون ہیں؟”
اس نے کہا: “یہ میری ماں ہیں۔”
پوچھا: “ان کو کیا ہوا؟”
کہا: “یہ پیدائشی طور پر دماغی کمزوری کا شکار ہیں۔”
ڈاکٹر نے حیرت سے کہا: “تو پھر آپ کیسے پیدا ہوئے؟”
محمد نے جواب دیا: “میرے دادا نے میرے والد کا ان سے نکاح کر دیا کہ شاید اولاد ہو جائے۔ میرے والد نے شادی کے ایک سال بعد ہی انہیں طلاق دے دی، اور اسی دوران یہ میرے ساتھ حاملہ ہو گئیں۔ پھر مجھے پیدا کیا۔ جب سے میں 10 سال کا ہوں، انہی کی خدمت کرتا ہوں۔”
وہ کہنے لگا: “میں ان کے لیے کھانا پکاتا ہوں۔ جب سوتا ہوں تو اپنا پاؤں ان کے پاؤں سے باندھ لیتا ہوں تاکہ اگر وہ بھاگ جائیں تو مجھے پتا چل جائے۔”
ڈاکٹر نے پوچھا: “انہیں کیوں لائے ہو؟”
کہا: “انہیں شوگر اور بلڈ پریشر ہے۔”
ماں ہنستے ہوئے کہنے لگی: “مجھے آلو دو۔” بیٹے نے فوراً آلو دے دیے۔ ماں نے اس کے چہرے پر تھوکا، اور وہ مسکرا کر اپنے چہرے کو صاف کرنے لگا۔
ڈاکٹر نے کہا: “یہ آپ کو پہچانتی بھی نہیں؟”
بیٹے نے کہا: “نہیں، اللہ کی قسم! یہ نہیں جانتیں کہ میں ان کا بیٹا ہوں، لیکن جس نے مجھے پیدا کیا وہ جانتا ہے کہ یہ میری ماں ہیں۔”
پھر ماں نے کہا: “بیٹا! تم جھوٹے ہو، مجھے مکہ کیوں نہیں لے جاتے؟”
بیٹے نے کہا: “امی! میں نے آپ سے کہا تو ہے کہ جمعرات کو لے چلوں گا؟”
ڈاکٹر نے کہا: “انہیں مکہ لے جاتے ہو حالانکہ ان پر شرعی ذمہ داری ختم ہو چکی ہے؟”
بیٹے نے جواب دیا: “جب بھی امی مکہ جانے کا کہتی ہیں، میں انہیں لے جاتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کوئی خواہش کریں اور میں پوری نہ کر سکوں، جب تک میں کر سکتا ہوں۔”
پھر وہ اپنی ماں کے ساتھ باہر نکل گیا۔ ڈاکٹر نے دروازہ بند کیا اور زور زور سے رونے لگی۔
وہ کہتی ہیں: “میں نے ماں باپ کی خدمت کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا، لیکن آج اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایک بیٹا جسے ماں پہچانتی بھی نہیں، پھر بھی اُس کی زندگی اپنی ماں کے قدموں میں بسر کرتا ہے۔ وہ بیٹا چاہے تو اُسے کسی پاگل خانے میں چھوڑ دیتا، مگر اُس نے اپنی زندگی اپنی ماں کی رفاقت میں گزارنے کا انتخاب کیا تاکہ اُس کی زندگی میں جنت کا دروازہ کھلا رہے۔
اے اللہ! ہمیں اپنے فضل سے محروم نہ فرما۔
اے اللہ! ہمارے والدین کو ہماری جنت کا ذریعہ بنا آمین
