یہ کہانی ہے ایک ظالم باپ کی جس نے اپنی جڑواں بیٹیوں کو صرف اس لیے زندہ قبر میں دفن کر دیا کہ اسے بیٹے چاہیے تھے۔ اور جب اس نے اپنی ہی بیوی کو زنجیروں میں قید کر دیا تو پھر اس کے ساتھ ایسا انجام ہوا کہ دیکھ کر پورا گاؤں توبہ توبہ کرنے لگا۔ یہ انجام سن کر یقیناً آپ کی روح بھی کانپ اٹھے گی۔
آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس وقت موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ ہر طرف آندھی چل رہی تھی، جیسے بارش ہر چیز کو بہا لے جائے۔ ایسے میں ایک عورت جس کی گود میں دو بچیاں تھیں، انہیں لیے تیز دوڑ رہی تھی۔ ننگے پاؤں وہ چلتی جا رہی تھی۔ گاؤں کی کچی سڑک پر سنسان علاقہ تھا، ہر طرف اس وقت ویرانی چھائی ہوئی تھی کیونکہ تیز بارش کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں تھے۔ وہ تیز تیز چلتی جا رہی تھی اور دونوں ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی اس کی بچیاں تھیں جنہیں پیدا ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے۔
آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ رہا تھا اور وہ چلتی ہی جا رہی تھی جیسے اپنی جان اور اپنی بچیوں کی جان کو کسی بڑے خطرے سے بچا رہی ہو۔ بارش کے قطروں کے ساتھ اس کے آنسو بھی مل گئے تھے۔ زمین کی کیچڑ میں پاؤں دھنستے مگر وہ رکتی نہیں تھی۔ کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتی اور پھر اور تیز چلنے لگتی۔ اس کے چہرے پر خوف کی لکیریں صاف جھلک رہی تھیں۔
وہ چلتی چلتی نہ جانے کہاں آ پہنچی تھی۔ قدم بے تحاشا بھاگتے جا رہے تھے اور دل کے اندر خوف کی دھڑکنیں تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھیں۔ آگے ایک گھنا جنگل سا شروع ہو رہا تھا اور سامنے ہی اس کی نظر ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی پر پڑی۔ دل نے کہا شاید یہی میری پناہ گاہ ہے۔ وہ کانپتے قدم کے ساتھ آگے بڑھی۔ بارش کی بوندیں اس کے بدن کو کاٹ رہی تھیں۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی تو دیکھا کہ دروازہ آدھا کھلا ہے۔ ڈرتی ڈرتی اندر داخل ہوئی تو جھونپڑی کی حالت دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔ چھت سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔ دیواریں بوسیدہ تھیں اور ماحول میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا،
جیسے برسوں سے یہاں کوئی نہ بسا ہو۔ وہ تھکی ہاری ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ ہمت کر کے کچھ لکڑیاں جو پڑی تھیں اکٹھی کیں اور بھیگی ہوئی کپکپاتی انگلیوں سے آگ جلانے کی کوشش کرنے لگی۔ بالآخر ایک ننھی سی چنگاری بھڑکی اور آگ کی لو روشن ہوئی۔ وہ دونوں ننھی بچیوں کو سینے سے لپٹا کر اس آگ کے پاس بیٹھ گئی۔ بچیوں کے ننھے ہاتھ اس کے چہرے کو چھو رہے تھے اور ماں کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح گرتے جا رہے تھے۔ بارش کی ٹھنڈ اور زندگی کے دکھ مل کر اس کے وجود کو لتھڑے جا رہے تھے۔ وہ اپنے دل میں بار بار اللہ کو پکار رہی تھی: “یا اللہ میری مدد فرما، میری بچیوں کی حفاظت فرما۔”
ابھی وہ دعاؤں میں ہی گم تھی کہ اچانک دروازہ چرچراتا ہوا کھلا۔ اس نے خوف سے بچیوں کو اپنے سینے سے اور بھی زور سے لپٹا لیا۔ دروازے میں ایک جھکی ہوئی پرانی لاٹھی تھامے ایک بوڑھی عورت داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پر جھریاں تھیں مگر آنکھوں میں سکون اور ماں جیسی مٹھاس تھی۔ بوڑھی عورت نے اسے دیکھا اور نرم لہجے میں کہا: “بیٹی گھبراؤ نہیں، یہ میرا ہی گھر ہے۔”
فاطمہ نے کانپتے ہوئے لہجے میں جواب دیا: “اماں، مجھے کچھ دن پناہ دے دو۔ باہر طوفان ہے اور میں اپنی بچیوں کو لے کر کہیں جا نہیں سکتی۔”
بوڑھی عورت اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے بولی: “بیٹی، یہ در و دیوار غریب سہی مگر محفوظ ہے۔ تم کچھ دن یہاں سکون سے رہ سکتی ہو۔ لیکن ایک بات بتاؤ تم کون ہو؟ اور اتنی بارش، اتنا طوفان چھوڑ کر تم اپنی نو مولود بچیوں کو لے کر کیوں نکل آئی ہو؟”
یہ سب سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اس کی آواز کانپنے لگی اور وہ نم لہجے میں بولی: “اماں، میری کہانی بہت ہی دردناک ہے۔ لیکن دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں۔” وہ لمحہ بھر کے لیے رکی، جیسے منہ کی دیواریں ٹوٹ کر اس کے سامنے گر رہی ہوں۔ پھر آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا:
“میں ایک یتیم لڑکی تھی۔ نہ ماں کا سہارا، نہ باپ کا سایہ۔ میری شادی دور پار کے رشتہ داروں میں ہوئی۔ میرا شوہر فضل ایک سخت مزاج اور بے رحم آدمی تھا۔ میری ساس بھی اتنی ہی سنگدل نکلی۔ شادی کو کچھ ہی مہینے گزرے تھے کہ فضل پردیس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اس وقت میں ماں بننے والی تھی۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ خبر سن کر وہ خوش ہوگا، مجھے سہارا دے گا۔ لیکن اس کی باتوں نے میرا دل توڑ کر رکھ دیا۔” فاطمہ کے ہونٹ کانپنے لگے۔ اس نے لرزتی آواز میں آگے کہا: “جب وہ پردیس جا رہا تھا،
میری گود خالی تھی مگر دل میں امیدوں کے دیے روشن تھے۔ مگر اماں، اس کے جانے کے بعد میری زندگی ایک قید خانہ بن گئی۔ ساس دن رات مجھے طعنے دیتی رہتی۔ کہتی بیٹا ہی پیدا کرنا، ہمیں پوتے چاہیے۔ ان کے الفاظ میرے دل کو کاٹتے جاتے۔ میں ہر روز ڈرتی رہتی کہ اگر بیٹیاں ہوئیں تو کیا ہوگا۔ میں نے ایک دن ہمت کر کے فضل سے بات کی کہ بیٹیاں بھی اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ مگر اس نے تو جیسے میرے وجود کو آگ میں جھونک دیا۔ اس نے کہا: ‘اگر بیٹے ہوئے تو ٹھیک، ورنہ اگر بیٹیاں ہوئیں تو یاد رکھنا، میں انہیں زندہ زمین میں دفن کر دوں گا۔
میرا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہوگا۔’ یہ الفاظ سنتے ہی میری روح کانپ گئی۔ اماں، یوں لگا جیسے میرے سینے میں سانس اٹک گئی ہو۔ اس لمحے کے بعد سے میرا دل ہر وقت خوف میں ڈوبا رہتا۔ میں راتوں کو جاگ جاگ کر رویا کرتی اور ہر سجدے میں اللہ سے دعائیں مانگتی: ‘یا اللہ، مجھے بیٹے عطا کر دے تاکہ میرے بچے دنیا کے ظالم ہاتھوں سے بچ جائیں۔'”
فاطمہ نے لرزتی ہوئی آواز میں اپنی کہانی آگے بڑھائی: “اماں، جب وقت آیا تو اللہ نے مجھے دو جڑواں بیٹیوں سے نواز دیا۔ ننھی پریاں دیکھ کر میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ مگر میرے چہرے کی مسکراہٹ خوف کے سائے میں دب گئی۔ میرا برا حال تھا، آنکھوں میں صرف ڈر ہی ڈر تھا۔ جیسے ہی میری ساس کو خبر ملی، اس نے فوراً میرے شوہر فضل کو فون کیا۔ اس کی زبان میں زہر تھا۔ اس نے کہا: ‘فضل فوراً واپس آ جاؤ۔ تمہاری بیوی نے بیٹیاں جننی ہیں۔ یہ ہمارے لیے بوجھ ہیں، کل کو ہمارے گھر کی مصیبت بنیں گی۔
‘ اماں، اس وقت میرا دل چاک ہو گیا۔ میں نے سوچا شاید میرا شوہر میری بیٹیوں کو قبول کر لے گا، میرا سہارا بنے گا۔ مگر اس نے بھی بے رحمی سے کہا: ‘میں پانچ دن میں آ رہا ہوں۔ ویزے کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ بس تم فکر نہ کرو، میں آ کر سب ٹھیک کر دوں گا۔’ یہ لفظ میرے لیے کسی تلوار سے کم نہ تھے۔ میرا دل دہل گیا۔ میں ہر وقت روتی رہی، رب کو پکارتی رہی، اپنے سانس کے پاؤں پکڑے، ہاتھ جوڑے کہ مجھ پر اور ان معصوم کلیوں پر رحم کر۔ مگر اس نے ایک نہ سنی۔ اس کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔ وہ ہر لمحہ میری بچیوں کو ختم کرنے کے در پر رہتی۔
پھر وہ دن آیا جب فضل دبئی سے واپس آنے والا تھا۔ اگلے دن اس کی فلائٹ تھی اور اس دن اماں، آسمان پر طوفانی بارش برس رہی تھی۔ ہر طرف اندھیرا اور سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ میری ساس اپنے کمرے میں سو رہی تھی، سردی کی شدت کے باعث موٹے کمبل میں لپٹی ہوئی تھی۔ میں نے موقع غنیمت جانا۔ اللہ کا نام لے کر اپنی دونوں بچیوں کو سینے سے لگایا اور دروازے سے باہر نکل آئی۔ اماں، میں دوڑتی گئی۔ کیچڑ سے بھرے راستے میرے پاؤں زخمی کرتے رہے مگر میں رکی نہیں۔
دل میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ کہیں وہ ظالم ہاتھ میرے ننھے پھولوں تک نہ پہنچ جائیں۔ یوں میں اپنے گاؤں سے بہت دور نکل آئی۔ بارش میرے آنسوؤں کو چھپا رہی تھی اور میرا خوف مجھے بھگاتا جا رہا تھا۔ چلتی چلتی جب ہمت جواب دے گئی تو سامنے آپ کی جھونپڑی نظر آئی۔ اور یوں میں آپ کے در تک آ پہنچی۔”
یہ کہتے کہتے فاطمہ کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ وہ اپنی بچیوں کو سینے سے لپٹا کر فٹ فٹ کر رونے لگی۔ اس کے آنسوؤں کی بوندیں بچیوں کے گالوں پر ٹپکنے لگیں اور جھونپڑی کا سناٹا اس کی ہچکیوں سے بھر گیا۔ بوڑھی عورت نے فاطمہ کے آنسو دیکھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرم لہجے میں کہا: “بیٹی فکر نہ کرو۔ تم اور تمہاری بچیاں اب اکیلی نہیں ہو۔ چند دن یہیں رہ لو۔ بارشیں ہیں، باہر نکلنا ناممکن ہے۔ لیکن یاد رکھو، یہ جھونپڑی محفوظ نہیں ہے۔ ظالم لوگ چاہیں تو یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ جیسے ہی موسم کھلے گا، میں تمہارے لیے محفوظ ٹھکانے کا بندوبست کروں گی۔”
فاطمہ نے آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیے۔ اس کے دل کو کچھ تسلی ملی مگر خوف کی زنجیریں اب بھی جکڑے رکھتی تھیں۔ وہ راتوں کو بچیوں کو سینے سے لگائے جاگتی رہتی اور ہر لمحہ اللہ سے دعا کرتی: “یا اللہ، میری بیٹیوں کو ظالموں کے ہاتھوں سے بچا لے۔”
ادھر دوسری طرف، فضل کی آنکھوں میں غصے کی آگ دہک رہی تھی۔ اس کا غرور اور انا چیخ رہی تھی۔ وہ گھر کے صحن میں ٹہلتا ہوا اپنی ماں سے چلّا کر کہہ رہا تھا: “یہ عورت میری عزت کو مٹی میں ملا گئی۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ میری بات کے خلاف جائے؟ میں نے کہا تھا کہ بیٹیاں میرے لیے موت ہیں۔ اب جب وہ زندہ بچیوں کو لے کر بھاگی ہے تو یاد رکھنا، میں انہیں بھی اور اسے بھی زمین میں زندہ دفن کر دوں گا۔”
اس کے ہونٹوں سے زہر ٹپک رہا تھا۔ ماں اسے بھڑکا رہی تھی: “ہاں بیٹا، یہ عورت ہماری ناک کٹوا دے گی۔ ڈھونڈھ اسے اور ایسا سبق سکھا کہ کوئی عورت آئندہ ہمت نہ کرے۔” فضل کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے مٹھی بھینچی اور کہا: “میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھتے ہی شور مچائے گی، ہنگامہ کرے گی۔ اس لیے اب مجھے ایسا منصوبہ بنانا ہوگا جو سیدھا نشانے پر لگے۔ ایک ایسا منصوبہ جس سے وہ نہ اپنی بچیوں کو بچا سکے نہ خود کو۔”
کچھ دن بعد فضل کو خبر ملی۔ کسی نے بتایا کہ فاطمہ کو فلاں علاقے میں آخری بار دیکھا گیا تھا۔ یہ سنتے ہی اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ سر جھکائے مسکراتا رہا۔ اس کی مسکراہٹ شیطانی تھی۔ “اب کھیل ختم ہونے والا ہے،” اس نے خود سے کہا۔
ادھر فاطمہ کو جھونپڑی میں آئے کچھ دن گزر گئے تھے۔ بارش کا شور کچھ تھما تو ضرور تھا مگر اس کے دل کا طوفان کم نہ ہوا۔ وہ ہر وقت سہمی ہوئی رہتی، اپنی دونوں بچیوں کو سینے سے لپٹائے رکھتی۔ کبھی ان کے ننھے ہاتھوں کو چومتی، کبھی آنکھیں بند کر کے اللہ کے حضور گڑگڑاتی: “میرے مولا، یہ تیری امانت ہے۔ انہیں اپنی پناہ میں رکھ، ظالموں سے بچا لے۔” جھونپڑی کے اندھیروں میں اس کی دعائیں گونجتی رہتیں اور باہر وقت اپنی تیز چال چل رہا تھا۔ کچھ ایسا ہونے والا تھا جس نے سب کچھ بدل دینا تھا۔
رات کا وقت تھا۔ آسمان پر بادل اب بھی موجود تھے اور ہلکی ہلکی بارش کی ٹپ ٹپ سنائی دے رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جھونپڑی کی کمزور دیواروں سے ٹکرا کر اندر آ رہے تھے۔ جھونپڑی کے اندر گہرا سناٹا تھا، صرف لکڑی کی آگ کی مدہم سی روشنی جل بجھ رہی تھی۔ بوڑھی عورت کونے میں بیٹھی تھی، اس کی نظریں مسلسل فاطمہ پر جمی ہوئی تھیں جو گہری نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کے قریب اس کی دونوں ننھی بچیاں بھی بےخبر سو رہی تھیں۔ فاطمہ کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں تھیں، جیسے اس کے بےہوش جسم کے اندر کوئی انجان خوف کروٹ لے رہا ہو۔
اچانک رات کی خاموشی کو کسی کے قدموں کی چاپ نے توڑ ڈالا۔ بوڑھی عورت چونکی۔ اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ آہستہ سے اٹھی اور دروازہ کھولا۔ سامنے فضل کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک بہشت جھلک رہی تھی، جیسے اس نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا ہو۔ بوڑھی عورت کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے فضل کی طرف دیکھتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے پیسے تھام لیے۔ اس کے ہونٹ لرزے اور مدہم آواز میں بولی: “تم یہیں رکو، میں لے کر آتی ہوں۔” وہ پلٹی، جھونپڑی کے اندر گئی اور دھڑکتے دل کے ساتھ بچیوں کو اٹھایا۔
ننھی کلیاں ماں کی آغوش سے جدا ہوئیں تو ذرا سی کر وٹ لے کر سیسکی مگر نیند کے غلبے میں پھر خاموش ہو گئیں۔ بوڑھی عورت نے وہ بچیاں فضل کے ہاتھوں میں تھما دیں۔ فضل کی مسکراہٹ اور بھی بھیانک ہو گئی۔ اس نے ایک طویل سانس لیا، جیسے برسوں کی بھڑاس نکل رہی ہو۔ پھر وہ مڑا اور اندھیرے میں غائب ہونے لگا۔ بوڑھی عورت نے پیسوں کو مضبوطی سے مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں میں نہ شرمندگی تھی، نہ پچھتاوا۔
ایک آخری بار اس نے جھونپڑی کے اندر جھانکا، جہاں فاطمہ بےخبر سو رہی تھی۔ چائے میں مِلائی گئی نیند آور گولیوں نے اسے اتنی گہری نیند میں ڈال دیا تھا کہ طوفان بھی اسے جگا نہ سکتا تھا۔ اسے ذرا سا بھی خبر نہ تھی کہ اس کی گود خالی کر دی گئی ہے اور اس کے خوابوں کا سب سے قیمتی اثاثہ اس سے چھین لیا گیا ہے۔ بوڑھی عورت نے آخری بار سرد سانس بھری، پھر جھونپڑی کا رُخ چھوڑ دیا، جیسے یہ جھونپڑی اس کا ٹھکانا کبھی تھا ہی نہیں۔اندھیری رات میں ہوا اور بارش کا شور بڑھتا گیا اور فاطمہ کی بےخبر نیند اس قیامت سے غافل رہی، جو اگلی صبح اس پر ٹوٹنے والی تھی۔
جیسے ہی صبح کا سورج نکلا تو فضل اپنے چہرے پر سفاکانہ مسکراہٹ سجائے دونوں ننھی بچیوں کو گود میں اٹھائے قبرستان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی۔ دونوں کے دلوں میں ذرا سا بھی رحم نہ تھا، جیسے انہیں اللہ کے خوف کا کوئی علم ہی نہ ہو۔ ننھی بچیاں بھوک سے بلبلا رہی تھیں، ان کے معصوم ہونٹ سوکھ رہے تھے مگر ماں بیٹا ان کی سیسکیوں سے بےپرواہ تھے۔ قبرستان کی ویران فضا میں جب وہ پہنچے تو انہوں نے بچیوں کو ایک طرف لٹا دیا۔
پھر دونوں نے بےحسی کے ساتھ زمین کھودنی شروع کر دی۔ کسی پل کے لیے بھی ان کے ہاتھ نہ رُکے، نہ آنکھوں میں پانی آیا۔ گڑھا تیار ہوا تو دونوں نے ایک نظر ان معصوم کلیوں پر ڈالی۔ وہ ننھے ہاتھ اٹھا کر جیسے زندگی کی بھیک مانگ رہی تھیں مگر بےرحم دل پتھروں سے بھی سخت ہو چکے تھے۔ اگلے ہی لمحے وہ ظالم ماں بیٹا ان بچیوں کو اس اندھے گڑھے میں ڈال کر مٹی برابر کرنے لگے۔ ننھی کلیوں کی سیسکیاں مٹی کے نیچے دب گئیں۔ زمین نے انہیں نگل لیا۔
پھر وہ دونوں ایسے ہی وہاں سے چلے گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ان کے چہروں پر مطمئن مسکراہٹ تھی، جیسے انہوں نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ لیکن جو کچھ وہ بھول گئے تھے، وہ یہ تھا کہ ایک ایسی ذات بھی ہے جو سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اس کے علم سے کچھ چھپ نہیں سکتا۔ وہ ذات خاموش ہے مگر اندھی نہیں۔ دوسری طرف جھونپڑی میں صبح سے دوپہر ہونے کو آئی تھی۔ فاطمہ اب بھی نیند کی بےہوشی میں پڑی تھی۔ گولیوں کا اثر تھا، آنکھ نہ کھل رہی تھی۔ بالآخر جب سورج آسمان پر بلند ہوا تو اس نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولی۔
سر بھاری تھا، قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ اس نے مشکل سے خود کو سہارا دے کر اٹھایا۔ جیسے ہی نظر اپنی پہلو پر پڑی تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ وہاں اس کی بچیاں نہیں تھیں۔ اچانک اس کا دل دھڑکنے لگا۔ اس نے جھونپڑی کے کونے کونے میں دیکھا۔ مگر وہاں تو وہ بوڑھی عورت بھی موجود نہ تھی۔ فاطمہ کی سانس تیز ہو گئی۔ اس نے دل ہی دل میں کہا: شاید اماں بچیوں کو لے کر باہر بیٹھی ہیں۔ وہ لڑکھڑاتے قدم کے ساتھ باہر نکلی۔ آسمان صاف تھا، بارش تھم چکی تھی مگر باہر بھی کوئی نہ تھا۔ نہ وہ بوڑھی عورت، نہ اس کی ننھی کلیاں۔
فاطمہ کے لبوں سے بےاختیار چیخیں نکلنے لگیں۔ وہ جنگل کے سنسان راستوں میں دہائی دیتی پھرتی رہی: “اماں، میری بچیاں کہاں ہیں؟ کوئی میری بچیاں مجھے واپس دے دو!” لیکن جواب میں صرف ہواؤں کی گونج تھی۔ فاطمہ پاگلوں کی طرح روتی بلکتی دوبارہ اپنے گاؤں کی طرف دوڑنے لگی۔ اس کے دل میں ایک ہی خیال تھا: “یہ سب فضل کا ہی کیا دھرا ہے۔ ہاں، وہی میری بچیوں کو لے گیا ہے۔”
اب اس کی آنکھوں میں آگ تھی، ہونٹوں پر سوال تھے اور دل میں خوف کہ آخر اس کی بیٹیوں کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔ جب فاطمہ اپنے گاؤں کے گھر کے دروازے پر پہنچی تو اس کی حالت دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ گیا۔ بال بکھرے ہوئے، کپڑے بارش اور کیچڑ سے تر، آنکھوں میں بہشت اور قدم لڑکھڑاتے ہوئے۔ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کسی نے طنز بھرا جملہ کسا: “یہ تو کہیں جاتی تھی کہ اپنے کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔” کسی نے نفرت سے رخ موڑ لیا: “ہائے ہائے، ایسی عورتوں کی یہی سزا ہوتی ہے۔
” گاؤں کی نظریں اس پر نفرت اور تحقیر سے جم گئی تھیں۔ فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر وہ سب پر توجہ دینے کے بجائے دروازے پر دستک دینے لگی۔ دروازہ چرچراتا ہوا کھلا۔ سامنے فضل کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر مصنوعی حیرت اور بناوٹی معصومیت تھی۔ وہ بولا: “کہاں گئی تھی تو؟”
لیکن فاطمہ کو سب سمجھ آ گیا۔ اس نے دیوانگی میں اس کا گریبان پکڑ لیا اور دہاڑتے ہوئے کہا: “فضل، بتا میری بچیاں کہاں ہیں؟ کہاں لے گیا تو انہیں؟” فضل کے چہرے پر وحشت بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔ اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ سے ایک زوردار طماچہ فاطمہ کے چہرے پر پڑا۔ فاطمہ لڑکھڑا کر زمین پر گر گئی۔ وہ وحشی درندہ اس کو گھسیٹ کر اندر لے گیا۔ کمرے کی ٹھنڈی زنجیریں اس کے ہاتھ پاؤں میں ڈال دیں۔
کمرہ اندھیرا تھا، دیواروں سے نمی ٹپک رہی تھی۔ فاطمہ کی چیخیں سنسان مکان میں گونجنے لگیں۔ فضل اس کے سامنے کھڑا گرجایا: “تیری یہ جرأت کیسے ہوئی؟ تو نے میری مرضی کے خلاف بچیوں کو بچانے کی کوشش کی؟ سن لے، تیری بچیاں اب زندہ قبر کے نیچے ہیں۔ ہاں، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال کر ان کی سانسیں بند کیں۔ کہا تھا نا بیٹا چاہیے اور تو نے نافرمانی کی اور بیٹیاں دے ڈالیں۔ اب بھگت!”
یہ سن کر فاطمہ کے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ اس کا دل کانپ اٹھا، اس کی روح جیسے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے ننھے وجود مٹی کے نیچے سیسکتے ہوئے دکھائی دیے اور صدمے کے بوجھ تلے وہ وہیں بےہوش ہو گئی۔ مگر ظالم فضل اور اس کی ماں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ان کے دلوں میں ذرا بھی نرمی نہ آئی، نہ ہی اللہ کا خوف۔ وہ فاتح کی طرح ہنس رہے تھے، جیسے کوئی بڑا ماریکا سر کر لیا ہو۔
قید کی زنجیروں میں جکڑی فاطمہ ہر لمحہ ٹوٹ رہی تھی۔ کبھی روتی، کبھی چیختی، کبھی زنجیروں کو کھینچتی اور پھر مایوس ہو کر بس دہاڑے مارتی: “میری بچیاں! یا اللہ میری بچیاں کہاں ہیں؟” اس کا ذہن جیسے اپنا توازن کھو بیٹھا تھا۔ ہر پل اس کے کانوں میں بیٹیوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔ وہ بار بار زمین پر گر کر دہائی دیتی مگر ظالم ماں بیٹے پر ذرا بھی رحم نہ آتا۔
پھر وہ رات آئی۔ رات کے اندھیرے میں طوفانی بارش برس رہی تھی۔ کڑک، گرج اور بجلی کی چمک پورے گاؤں کو دہلا رہی تھی۔ فضل اور اس کی ماں بےفکری سے صحن میں سو رہے تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ قدرت کا فیصلہ اترنے والا ہے۔
صبح کا سورج نکلا تو گاؤں والوں کو ایک عجیب اور ناقابل برداشت بدبو نے ہلا کر رکھ دیا۔ لوگ ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھنے لگے: “یہ کیسی بدبو ہے؟ یہ کہاں سے آ رہی ہے؟” بدبو کا سراغ لگاتے ہوئے فضل کے گھر پہنچے۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ صحن میں ایک ہولناک منظر ان کا انتظار کر رہا تھا۔ فضل اور اس کی ماں کی لاشیں پڑی تھیں۔ مگر ان لاشوں کو دیکھ کر پہچاننا مشکل تھا۔ ان کے جسموں پر کیڑے، سانپ اور بچھو رینگ رہے تھے۔ گوشت کو جگہ جگہ سے نوچ ڈالا گیا تھا۔
آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، عجیب سی بھری نظروں کے ساتھ، جیسے وہ اپنی موت کے وقت کسی خوفناک عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ گاؤں والے دہل گئے۔ کچھ لوگ تو دم گھٹنے سے وہیں گر پڑے۔ سب کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا: “یا اللہ، یہ کیا ہوا؟ یہ تو سب کے سامنے نیک اور عبادت گزار بنتے تھے۔ پھر ان پر اتنا بڑا عذاب کیوں آیا؟”
لوگوں کے قدم اندر کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔ وہاں ایک اور منظر ان کے دل دہلا دینے والا تھا۔ کمرے کے اندھیرے میں زنجیروں میں جکڑی فاطمہ بیٹھی تھی۔ بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں دہشت، چہرہ آنسوؤں سے تر۔ وہ دھیرے دھیرے سیسک رہی تھی، کبھی زنجیریں کھڑکھڑا دیتی۔ گاؤں والے سکتے میں آ گئے۔ “یہ فاطمہ! یہ یہاں قید تھی؟” کچھ جوانوں نے آگے بڑھ کر اس کی زنجیریں کھول دیں۔
زنجیروں کے کھلتے ہی فاطمہ دہاڑے مار کر رونے لگی۔ اس کی آواز پورے گھر میں گونج اٹھی: “میری بچیاں! انہوں نے میری بیٹیوں کو مٹی کے نیچے دفن کر دیا۔ وہ ظالم فضل اور اس کی ماں تھے۔ اللہ نے ان پر وہی عذاب نازل کیا ہے جو ان کے ظلم کے لائق تھا۔”
یہ سن کر گاؤں والے سکتے میں آ گئے۔ ان کی آنکھوں میں حیرت اور خوف بھر گیا۔ وہ سوچنے لگے کہ جسے وہ نیک سمجھتے تھے، وہ اندر سے درندے نکلے۔ جب فاطمہ کی زنجیریں کھولی گئیں تو وہ زمین پر گر پڑی۔ روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔ گاؤں والے حیرانی سے دیکھنے لگے: “فاطمہ، یہ سب کیا ہوا؟ تمہیں کیوں زنجیروں میں باندھا گیا تھا؟” فاطمہ نے روتے روتے وہ سب کچھ کہہ دیا جسے سن کر زمین بھی کانپ جائے۔ “انہوں نے میری معصوم بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا۔ صرف اس لیے کہ وہ بیٹے چاہتے تھے۔ یا اللہ، یہ کس جرم کی سزا ہے؟”
یہ سن کر مجمع پر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ سب کے دل کانپ اٹھے۔ اب کسی کو شک باقی نہ رہا کہ فضل اور اس کی ماں کو اتنی عبرتناک موت کیوں ملی تھی۔ لوگوں کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا: “یہ تو بس دنیا کا عذاب تھا، نہ جانے آخرت میں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔” بڑی مشکل سے گاؤں والوں نے ان دونوں ظالموں کو گڑھا کھود کر دفن کیا۔ مگر نہ انہیں غسل دیا گیا، نہ کفن، نہ جنازہ۔ سب نے کہا: “یہ اس قابل ہی نہیں تھے کہ انہیں قبر کا سکون دیا جائے۔”
ادھر فاطمہ کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ اس کے لیے وہ گھر قید خانہ بن گیا تھا۔ وہ ہر وقت اپنی بیٹیوں کو یاد کرتی رہتی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی بیٹیاں کہاں دفن ہیں مگر کچھ کر نہ سکتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا ذہنی توازن بھی بگڑ گیا۔ اب وہ گاؤں کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح گھومتی۔ کبھی کسی بچے کو روک کر کہتی: “بیٹا، کیا تم نے میری بیٹیاں دیکھی ہیں؟ مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟” لوگ اس کی حالت دیکھ کر روتے تھے۔ کوئی ترس کھا کر اسے کھانا دے دیتا، کوئی بس نظریں جھکا لیتا۔ فاطمہ کی زندگی یوں ہی تڑپتے، سیسکتے اور در بدر گھومتے گزرتی رہی۔ آخرکار ایک دن وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
لیکن فاطمہ کی کہانی رخصت نہیں ہوئی۔ آج بھی جب گاؤں میں کوئی ماں اپنی بیٹی کے لیے آنکھ سے آنسو بہاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں: “فاطمہ کو یاد کرو، اس کی بیٹیوں کی قربانی کو یاد کرو۔” یوں فاطمہ کی کہانی صرف ایک عورت کا دکھ نہ رہی بلکہ ہر دل کے لیے ایک سبق بن گئی کہ معصوموں کا خون کبھی بےکار نہیں جاتا۔
مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ وہ بوڑھی عورت جس نے چند سکوں کے لالچ میں فاطمہ کے ساتھ غداری کی تھی اور اس کی ننھی بچیوں کو فضل کے حوالے کر دیا تھا، اس کا انجام بھی کچھ کم بھیانک نہ ہوا۔ کچھ عرصے بعد دوسرے گاؤں میں اچانک یہ خبر پھیلی کہ وہ عورت ایک خوفناک اور دردناک موت مری ہے۔ اس کی لاش کو دیکھنے والا ہر شخص دہل گیا۔ کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔
وہ بوڑھی عورت اپنی جھونپڑی میں مردہ پائی گئی۔ اس کا جسم بھی کیڑے مکوڑوں سے بھر چکا تھا، گویا وہ زندہ ہی کھا گئے ہوں۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور آنکھیں ایسی کھلی تھیں جیسے موت سے پہلے وہ کسی خوفناک چیز کو دیکھ رہی ہو۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کی مٹھی میں وہی سکے تھے جو فضل نے اسے دیے تھے، جو اب اس کے ہاتھ میں ہمیشہ کے لیے جکڑے جا چکے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان سکوں نے اس کی کلائیوں کو زنجیروں کی طرح جکڑ لیا ہو۔
گاؤں والے اس واقعے پر سر جوڑ کر بیٹھ گए۔ ایک بزرگ نے کہا، “دیکھا تم نے؟ اللہ کا حساب بہت عجیب ہے۔ جو ظلم کی کمائی کھاتا ہے، وہ اسے زہر بن کر ہلاک کر دیتی ہے۔” فاطمہ کی قبر، جو گاؤں کے قبرستان میں ایک کونے میں تھی، اب لوگوں کے لیے ایک متبرک جگہ بن گئی تھی۔ عورتیں اس کی قبر پر آتیں، فاتحہ پڑھتیں اور اپنی بیٹیوں کی سلامتی اور خوشحالی کی دعائیں مانگتیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اس جگہ کو “فاطمہ کی آس” کا نام دے دیا۔
ایک دن، گاؤں کی ایک نوجوان لڑکی جس کی شادی ہونے والی تھی، فاطمہ کی قبر پر آئی۔ وہ روتی ہوئی دعا کر رہی تھی، “اے فاطمہ اماں، میری ماں مجھے پیدا ہوتے ہی مارنا چاہتی تھی کیونکہ میں لڑکی تھی۔ اب وہ میری شادی ایک بوڑھے آدمی سے کرنا چاہتی ہے۔ میری مدد کر۔”
اسے وہاں سے جانے کے بعد، اچانک اس کی ماں کے دل میں ایک عجیب تبدیلی آئی۔ جیسے فاطمہ کی روح نے اسے ٹٹو لیا ہو۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی منسوخ کر دی اور کہا، “نہیں، میں اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔ میں وہ غلطی نہیں دہراؤں گی جو فاطمہ کی ساس نے کی تھی۔” یہ واقعہ پورے گاؤں میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ فاطمہ مر کر بھی بیٹیوں کے لیے ایک محافظ بن گئی ہے۔
اسی طرح، کئی سال گزر گئے۔ وہ گاؤں جہاں یہ سارے واقعات پیش آئے تھے، اب بدل چکا تھا۔ بیٹیوں کی پیدائش پر اب خوشیاں منائی جانے لگی تھیں۔ لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ اولاد خواہ لڑکی ہو یا لڑکا، وہ اللہ کی جانب سے ایک انمول تحفہ ہے۔
آج بھی جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو بزرگ اسے فاطمہ کی کہانی سناتے ہیں اور کہتے ہیں:
“بیٹی کوئی بوجھ نہیں، وہ تو رحمت ہے۔ اسے فاطمہ کی آس سمجھ کر پالو، وہ تمہارے گھر میں برکت بن کر آئی ہے۔” فاطمہ کی قبر پر ایک چھوٹا سا پتھر نصب ہے جس پر لکھا ہے:
**”یہاں ایک ماں آرام کر رہی ہے جس نے بیٹیوں کے لیے اپنی جان دے دی۔ اسے مت بھولئے۔”**
اور کہا جاتا ہے کہ آج بھی کبھی کبھار، چاندنی راتوں میں، کوئی فاطمہ کی قبر کے پاس دو ننھی سی پرچھائیوں کو دیکھنے کی بات کرتا ہے، جو ہمیشہ کے لیے اپنی ماں کی گود میں سو گئی تھیں۔
اور اس طرح، فاطمہ کی قربانی نے نہ صرف اس کے گاؤں بلکہ آنے والی کئی نسلوں کے دل میں بیٹیوں کی قدر و منزلت کا ایک ایسا چراغ روشن کر دییا جو آج تک جلتا ہے۔
**ختم شد**
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اور معصوموں پر رحم کرنا اور ان کی حفاظت کرنا انسانی فرض ہے